• مومنو! پڑھتے رہو درود
  • صَلّی اللّٰہُ عَلٰی حَبِیبِہ مُحَمَّدٍ وَّآلِہ وَسَلَّمَ

انعاماتِ درود

دلائل الخیرات و شوارق الانوار فی ذکر الصلوٰۃ علی النبی المختار

امام جزولی رحمۃ اللّٰه علیہ کی اس شہرہ آفاق تالیف کو جو قبولیتِ عام نصیب ہوئی وہ اسی کا خاصہ ہے۔ اس کتاب کی غرض و غایت امام جزولی خود بیان فرماتے ہیں: ابتغاء لمرضات اللہ تعالی ، و محبۃ فی رسولہ الکریم سیدنا محمدﷺ۔  یعنی اس کتاب کےمرتب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی رضا، اور اس کے حبیبﷺ کی محبت نصیب ہو۔ (مقدمہ دلائل الخیرات)۔   *سبب ِ تالیف:* عارف باللہ شیخ احمد صاوی رحمہ اللّٰه نے ’’ صلوات الشیخ الدردیر‘‘ کی شرح میں بیان کیا، اور علامہ نبہانی کے شیخ، علامہ حسن عددی نے دلائل الخیرات کا سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:  ايک مرتبہ حضرت شیخ جَزولی رحمۃ اللّٰه علیہ وُضُو کرنے کے لئے ایک کنویں پر گئے مگر اُس سے پانی نکالنے کے لئے کوئی چيز پاس نہ تھی۔ شیخ پريشان تھے کہ کیا کريں؟ اتنے ميں ايک اونچے مکان سے بچی نے ديکھا تو کہنے لگی:  ’’یاشیخ! آپ وہی ہيں نا، جن کی نيکیوں کا بڑا چَرچا ہے، اِس کے باوجود آپ پريشان ہيں کہ کنويں سے پانی کس طرح نکالوں! ’’ پھر اس بچی نے کنويں ميں اپنا لُعاب ڈال ديا۔ تھوڑی ہی دیر میں کنويں کا پانی بڑھنا شروع ہوگیا حتی کہ کناروں سے نکل کر زمين پر بہنے لگا۔ شيخ نے وضو کیا اور اس بچی سے کہنے لگے :  ’’ميں تمہيں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے يہ مرتبہ کیسے حاصل کیا؟ ’’اس بچی نے جواب دیا: ’’ميں رسولِ کریمﷺ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتی ہوں۔‘‘ يہ سُن کر شيخ سلیمان جزولی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے قَسَم کھائی کہ ميں دربارِ رِسالت ميں پيش کرنے کے لئے درود و سلام کی کتاب ضرور لکھوں گا۔  (نور نور چہرے:324)   *دلائل الخیرات کی مقبولیت:* شیخ قیطونی اس کی مقبولیت کا تذکرہ کرتےہوئے فرماتے ہیں:  دلائل الخیرات حضور نبی کریمﷺ پر درود کے متعلق ایک ایسی کتاب ہے، جو اللہ کی نشانیوں میں ایک بڑی نشانی ہے۔ جسے تمام روئے زمین پر بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ اسی طرح حاجی خلیفہ نے بھی اس کی شرق و غرب میں مقبولیت کا تذکرہ کیا ہے۔ (صاحبِ دلائل 9، بحوالہ کشف الظنون جلد1،ص759)۔   اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ بعض خوش نصیبوں کو براہِ راست حضورﷺ نے اس کتاب کی اجازت عطاء فرمائی۔  شیخ صدیق فلالی رحمہ اللّٰه جو ایک امی بزرگ تھے، دلائل الخیرات حفظ تھی۔انہیں خواب میں صاحبِ علم ماکان ومایکون ﷺ نے دلائل الخیرات پڑھائی تھی۔ (ایضا:10) سیدی محمد مغربی تلمسانی، اور سیدی محمد اندلسی رحمہما اللہ نے آپﷺ سے اجازت حاصل کی۔ مشائخِ عظام نہ صرف دلائل الخیرات کو بطورِ ورد پڑھتے رہے ہیں، بلکہ اپنے مشائخ سے بطورِ سند باقاعدہ اجازت بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایسے حضرات ’’شیخ الدلائل‘‘ کے محترم لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔   *طریقہ و آداب:* شرفِ ملت حضرت علامہ مولانا عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:  ’’بندۂ مؤمن کے لئے اللہ تعالیٰ کے فرائض و واجبات، تلاوتِ قرآنِ کریم، ذکر الہی اور اتباعِ سنت کے بعد سب سے زیادہ اہم وظیفہ درود ِ پاک ہے، جس کے دنیاوی اور اخروی بے شمار فوائد ہیں۔ دلائل الخیرات کی برکتیں حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائے۔ سرکارِ دوعالمﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہو، بندوں کے حقوق ادا کرے، مسواک کے ساتھ وضو کرے، پاک صاف کپڑے پہنے، خوشبو لگائے، قبلہ رخ بیٹھ کر پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ دلائل الخیرات شریف پڑھے‘‘۔   یہ کتاب آٹھ حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ ہر حصے کو ’’حزب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے، تو ہر روز پوری دلائل الخیرات پڑھی جائے۔ نہیں تو دو دن یا چار دن میں پڑھی جائے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو ہفتے میں مکمل کی جائے۔ پیر کے دن ’’فصل کیفیۃ الصلوٰۃ علی النبی ﷺ‘‘ شروع کی جائے۔ آئندہ پیر کو آٹھواں حزب پڑھ کر اسی دن پہلا حزب پڑھا جائے۔ (نور نور چہرے: 330)  

مزید پڑھیے

درودِ شریف --- شفا ہی شفا

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے درودِ شریف میں شفا ہی شفا ہے جسمانی بیماریوں سے شفا روحانی بیماریوں سے شفا ہے درود شریف کے بے انتہا فضائل ہیں ان فضائل میں سے دو فضائل یہ ہیں کہ درود شریف کا پڑھنے والا دنیا کی رسوائی سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی آبرو میں کوئی کمی نہیں آتی ایک بزرگ کا قول ہے ہم نے جو کچھ بھی اس دنیا میں پایا خواہ وہ دنیاوی انعامات ہوں خواہ اخروی انعامات ہوں سب کا سب درود شریف کی برکت سے پایا ہے.(القول الجمیل عربی صفحہ ۱۰۳) درود پاک پڑھتے رھنا اور پڑھوانے والے ۔حضور پاک ﷺ کے قرب و نظر کرم میں آ جاتے ہیں حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری‎ ‎عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی‎ ‎کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضِر ہو کر ایک عورت نے عَرض کی میری جوان بیٹی فوت ہوگئی ہے کوئی طریقہ ارشاد ہو کہ میں اسے خواب میں دیکھ لوں آپ‎ ‎رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ‎ ‎نے اُسے ایک عمل بتا دیا اُس نے اپنی مرحومہ بیٹی کو خواب میں تو دیکھا مگر اِس حال میں دیکھا کہ‎ ‎اُس کے بدن پر تارکَول ‎یعنی ڈامَر‎ ‎‏کا لباس گردن میں زنجیر اور پاؤں میں بَیڑیاہیں یہ‎ ‎ہَیبتناک‎ ‎منظر دیکھ کر وہ عورت کانپ اُٹھی! اُس نے دوسرے دن یہ خواب حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری‎ &...

مزید پڑھیے

روٹی میرے ہاتھ میں تھی!

حضرت شیخ حماد ابوالخیر الاقطع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا تو دو تین دن سے مجھ پر فاقہ تھا۔ تو میں نے مواجہہ شریف میں حاضرہوکر صلوٰۃ و سلام کے بعد عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم انا ضیفک(میں آپ کا مہمان ہوں) اور مسجد نبوی ﷺ میں ایک طرف بیٹھ کر درود شریف پڑھنے میں مشغول ہوگیا کہ نیند نے غلبہ کیا اور سوگیا تو خواب میں مجھے سرور انبیاء ﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپ ﷺ کے دائیں طرف سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ اور بائیں طرف فاروق اعظم رضی اللہ عنہٗ اور سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہٗ جوجلدی جلدی سب سے آگے بڑھ کر میری طرف تشریف لائے اور مجھے فرمایا مرحبا بضیف رسول اللہ اٹھ(خوش آمدید اللہ کے رسول کے مہمان)‘ حضور ﷺ تشریف لارہے ہیں۔ میں اٹھا اور تعظیم بجالایا۔ آپ ﷺ نے کمال شفقت سے ایک روٹی عطا فرمائی جو میں نے خواب میں ابھی آدھی کھائی تھی کہ فرط شوق سے میری آنکھ کھل گئی تو باقی آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔ سبحان اللہ۔ آپ ﷺ نے خوشبودار کھانا عطا فرمایا حضرت شاہ عبدالرحیم نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رمضان المبارک میں مشقت کی وجہ سے سخت کمزوری طاری ہوگئی قریب تھا کہ روزہ افطار کرلیتا مگر فضیلت رمضان شریف کے فوت ہونے کے خوف سے بازرہا۔ اسی غم کی حالت میں درود پاک پڑھتے پڑھتے اونگھ آگئی۔ میں نے خواب میں حضور انورﷺ کو دیکھا۔ آپ ﷺ نے مجھے بہت لذیذ اور خوشبودار کھانا ازقسم پلاؤ ہندی عطا فرمایا‘ میں نے شکم سیر ہوکر کھایا اور ٹھنڈا پانی پیا جو آپ ﷺ نے ہی عطا فرمایا تھا۔ پھر بیدار ہوگیا تو نہ تو بھوک تھی نہ پیاس اور نہ کسی قسم کی تھکاوٹ اور میرے ہاتھ میں ابھی تک زعفران کی خوشبو آرہی تھی اور بعض عقیدت مندوں نے سنا تو میرا ہاتھ دھو کر تبرکاً اس سے روزہ افطار کیا جس سے ان کے قلبی احوال کھل گئے۔ سبحان اللہ۔ بیماری سے مکمل شفاء ہوگئی حضرت ابراہیم بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور بزرگ جو مکہ معظمہ میں قیام پذیر تھے اور ساٹھ سال سے مسلسل حج بیت اللہ کے بعد بارگاہ رسالت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا کرتے اور حضور ﷺ کے ہاں بطور مہمان رہا کرتے اور حضور ﷺ بھی ان کو خصوصیات سے نوازتے۔ عجیب شان محبوبانہ رکھنے والے بزرگ تھے۔ شب و روز میں دس ہزار بار درود پاک پڑھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بوجہ بیماری مدینہ منورہ حاضر نہ ہوسکے تو مکہ معظمہ میں ایک رات خواب میں جمال جہاں آرا محبوب خدا ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابن ثابت! تمہارا انتظار رہا تم نہ آئے تو ہم ملنے کیلئے آگئے‘‘ اور جب آنکھ کھلی تو سارا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور عجیب حالت طاری تھی اور بیماری سے کامل اور مکمل شفاء ہوگئی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی درخواست بارگاہ الٰہی میں بوسیلہ سرکار دوجہاںﷺ محبوب خدا حضرت محمد مصطفیﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت جبرائیل علیہ السلام معراج کی رات ایک مقام تک لے جاکر رک گئے تو میں نے پوچھا کیا دوست سے دوست ایسے مقام میں آکر رک جاتا ہے؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے بصد آہ و زاری اپنی مجبوری کا اظہار کیا اور عرض کیا کہ اے سرور دوجہاں ﷺ میں اور آگے بڑھنے سے عاجز ہوں اگر اس حد سے بال برابر تجاوز کروں گا تو تجلیات الٰہی کے انوار مجھے جلا کر راکھ بنادیں گے۔ آپ ﷺ آگے بڑھیے آپ ﷺ کی سرفرازی کا مقام بہت اعلیٰ و بالا ہے۔ آپ ﷺ بلاخوف و خطر بڑھتے جائیے۔ حبیب رب العالمین ﷺ فرماتے ہیں کہ جب جبرائیل علیہ السلام کو میں نے اپنی ہمراہی سے معذور پایا تو ان سے دریافت کیا کہ اے جبرائیل علیہ السلام تمہاری کوئی حاجت بارگاہ ایزدی میں پیش کرنی ہے؟حضرت جبرائیل علیہ السلام بولے کہ ’’ہاں یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ میرے لیے اللہ پاک سے یہ سوال کیجئے کہ مجھے بروزحشر پل صراط پر آپ ﷺ کے امتیوں کا گزر بآسانی ہوسکنے کیلئے‘ اپنے پروںکو بچھا دینے کی اجازت دیں تاکہ میں آپ ﷺ کے دل کو خوش کرنے کی ایک ناقص خدمت انجام دے سکوں‘‘۔ حضرت شافع جن و بشر ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ پاک تمہارے اس خیرخواہی کے خیال و مقصدمیں برکت عطا فرمائے۔‘‘ حضور انور ﷺ جب بارگاہ رب العزت سے واپس ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محبوب ﷺ تم تو جانے لگے ہو‘ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آتے وقت جو درخواست کی تھی وہ کیوں پیش نہیں کرتے؟ تو میں نے جواب دیا کہ ’’الٰہی تو عالم الغیب والشہادۃ ہے تو سب جانتا ہے میرے بیان کی کیا ضرورت ہے‘‘ تو جل جلالہ‘ عم نوالہ‘ نے فرمایا: ’’ نہیں نہیں‘‘ تمہارے بیان کی اشد ضرورت ہے‘ درخواست حضرت جبرائیل علیہ السلام کی قبولیت‘ تمہارے سوال و سفارش پر موقوف ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کی بڑی خواہش ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ میری گنہگار امت کو صراط یوم القیامۃ کے عبور کرنے میں سہولت و آسانی کیلئے اپنے پروں کو پل صراط پر بچھادے۔‘‘ تو مالک عرض و سما نے فرمایا ’’تمہاری عرضی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے حق میں تو قبولیت حاصل کرلی‘لیکن تمہاری امت کی صرف ایک جماعت کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پروں پر سوار ہوکر صراط یوم القیامۃ عبور کرنے کی اجازت ملے گی‘‘ تو حیرت سے رسول اکرم ﷺ نے عرض کیا کہ ’’اے باری تعالیٰ! وہ اجازت کون سی جماعت کیلئے ہوگی‘‘؟ خدائے لم یزل نے فرمایا کہ صرف اس جماعت کو اجازت نصیب ہوگی جوتم پر صلوۃ وسلام کی کثرت کرتی ہے۔

مزید پڑھیے